Sara Chaudary
Member
اچھے اُستاد بننے کے راز
دنیا کا کوئی بھی طالب علم صرف فزکس، کیمسٹری یا دوسرے مضامین پڑھنے نہیں آتا۔ دراصل وہ ایک تعلیمی ادارے یاایک استاد کے پاس اس لیے آتا ہے کہ استاد یا ادارہ اس کو یہ یقین دے دے کہ تم کچھ کرسکتے ہو۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے تمام کے تمام استاد بہت اچھا پڑھاتے ہیں، بڑی محنت کرتے ہیں لیکن بچے کو یقین نہیں دیتے۔ وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلا نمبر یقین کا آتا ہے، دماغ کا نہیں آتا۔ اگر آپ ایک بچے کو یقین دے دیتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ بیٹا، اگر آپ اپنی صلاحیت پر یقین کرو گے تو یہی صلاحیت آپ کو آسمان کی بلندیوں تک لے کر جائے گی تو آپ اس پر دنیا کا سب سے بڑا احسان کردیتے ہیں۔
ایک اچھے استاد کو بچے کے اندر پہلے محنت کا یقین پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اسے کہنا پڑتا ہے کہ بیٹا، آپ اپنی محنت پر یقین کیجیے۔ جب بچے کو اپنی محنت پر یقین ہو جاتا ہے تو پھر اس کا پڑھنے کا جی کرتا ہے۔ بچے کو دوسرا یقین خدا کی ذات کا دینا ضروری ہے کہ بیٹا،تم خدا پر یقین رکھو۔ اس کے کرم پر یقین رکھو۔ آج تک اس نے کسی کی محنت ضائع نہیں کی۔ جب بھی کوئی شخص آگے بڑھنے کیلئے محنت اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی معاون ہوجاتی ہے۔
دوسرا راز
دنیا کے بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ جب بھی آپ کو آگے بڑھنا ہوتا ہے، آپ کو کسی مقام یا منزل پر پہنچنا ہوتا ہے تو آپ کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہاں تک پہنچنے کا آپ کے پاس کوئی مقصد ہو۔ اگر آپ کی زندگی میں کوئی مقصد ہے تو پھر آپ عام انسان نہیں ہیں۔ آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں۔
اگر آپ بچوں کو مقصد دے دیتے ہیں تو پھر آپ عام استاد نہیں رہتے، مگر مقصد دینے کیلئے یہ ضروری ہے کہ آپ کے پاس بھی کوئی مقصد ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمار ے آج کے استاد کے پاس کوئی مقصد نہیں ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ آپ کیوں پڑھا رہے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے،اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اس کا مقصد چند پیسے ہوتا ہے۔ وہ اپنے جیب خرچ کے لیے اور اپنی زندگی گزارنے کیلئے ایک دہاڑی دار مزدور والی سوچ لیے گھر سے نکلتا ہے، اس لیے نسلوں کی تبدیلی اس کی تعلیم سے ممکن نہیں ہوتی۔
مؤثر استاد بننے کا راز یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی مقصد ضرور ہو۔ ساتھ ہی وہ بچوں کو بھی مقصد سے روشناس کرائے۔ وہ بچوں کو ٹارگٹ دے، چھوٹے چھوٹے ٹاسک دے تاکہ بچوں کو شروع سے عادت پڑ جائے کہ ہمیں زندگی کے صرف دن، ہفتے، مہینے اور سال پورے نہیں کرنے، بلکہ دن،ہفتے اور مہینوں کو کسی مقصد کے تحت گزارنا ہے۔
تیسرا راز
دنیا کا ہر انسان ترقی کرنا چاہتا ہے، آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ آپ کسی سے انٹرویو لیں اور پوچھ لیں کہ کیا وہ ترقی کرنا چاہتا ہے؟ وہ طالب علم ہو،ماں ہو، باپ ہو، استادہو، بزنس مین ہو۔۔۔ اس کا زندگی کے کسی شعبے سے بھی تعلق ہو، وہ اعتراف کرے گا کہ وہ ترقی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اسے ترقی کے سب سے بڑے رازکا پتا نہیں ہوتا۔ وہ راز یہ ہے کہ دنیا میں ترقی صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ چلنے والے ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک فرد کے ساتھ نہیں چلتے، بڑی ٹیم بنا کر کیسے چلیں گے۔ ہم تعلق توڑنے پر آتے ہیں تو اپنے سگے بہن بھائیوں سے تعلق توڑ دیتے ہیں۔ ہمیں واسطہ پڑ جائے تو ہم والدہ سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ساتھ چلنا پڑجائے تو ہمیں اپنے والد صاحب ہی اچھے نہیں لگتے۔ ہم اپنے خاندان کو، اپنے گھر کو، اپنی فیملی کو، اپنے رشتے داروں کو، اپنے محلے داروں کو، اپنے علاقے کو، اپنے شہر کو اور اپنے ملک کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے توپھر ہم ترقی کیسے کرسکتے ہیں۔
چوتھا راز
آپ دنیا کی مرتبہ تاریخ نکال کر دیکھیں تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ تاریخ انسانی میں دنیا کے کامیاب ترین لوگ، مؤثر ترین لوگ، دنیا کے کامیاب ترین استاد، کامیاب ترین دانشور دراصل کردار والے لوگ تھے۔
آج کا استاد۔۔۔ اس کے پاس مضمون ہے، فزکس ہے، کیمسٹری ہے، یادداشت ہے، ڈگری ہے، پروفیسر ہے، لیکن اس کے پاس کردار نہیں ہے۔ جب کردار نہیں ہوتا تو زندگی بھی کم ہوجاتی ہے۔ یہ اس زندگی کی بات ہے جو بڑے اساتذہ کو ملتی ہے۔ سقراط زہر کا پیالہ سامنے رکھتا ہے اور مسکراتا ہے۔ اس کے پاس کھڑا شخص پوچھتا ہے، تم مرنے لگے ہو اور مسکرا رہے ہو؟ وہ کہتا ہے، نہیں میر ی زندگی بہت زیادہ ہے ، میری زندگی تو میرے افکار کی زندگی ہےاور وہ تمام درس جو میں نے ان سٹرکوں پر، ان چوراہوں پر، ان اسکولوں میں دیئے تھے، یہ کئی ہزار سال پڑھائے جائیں گے۔ آج دنیا میں فلسفے کا کوئی طالب علم ممکن ہی نہیں کہ فلسفے کی ڈگری سقراط کو پڑھے بغیر لے سکے۔ یہ کمال ہوتا ہے ایک بڑے استاد کا۔
پانچواں راز
ہمارے ملک میں ڈگریوں ، پروفیسروں، استادوں کی بھرمار ہے، لیکن جب آپ ڈھونڈنے جاتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس پڑھانے کی صلاحیت نہیں ہے تو آپ حیران ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگریاں توہوتی ہیں، وہ ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں،پروفیسر بھی ہوتے ہیں، انھوں نے ماسٹر بھی کیا ہوتا ہے لیکن ان میں پڑھانے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ کیا عجیب بات ہے کہ آپ کشتی ایسے ملاح کے حوالے کر دیں جو کشتی چلانا ہی نہ جانتا ہو۔
جب استاد میں قابلیت نہ ہو تو پھر ہوتا یہ ہے کہ اساتذہ کے لیکچر بیزار کرتے ہیں، کلاسوں میں بیٹھے ہوئے بچوں کو نیند آتی ہے، پروفیسر پڑھا رہا ہوتا ہے، بچے اپنے موبائل نکال کر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ آج کے استاد کو انگیج کرنا نہیں آتا۔ جب بھی آپ کو جوڑنا آتا ہوتا ہے تو آپ عام استاد نہیں رہتے، آپ مؤثر استاد بن جاتے ہیں۔
چھٹا راز
اگر کسی استاد سے پوچھا جائے کہ آپ کیوں پڑھا رہے ہیں تو عموماً یہ جواب ملتا ہے کہ میرے کچھ دن گز ر جائیں۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ جواب دیتا ہے، مجھے اس کی خبر نہیں ہے۔ جس استاد کے پاس ویژن ہی نہیں ہے، اس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس کی آج کی محنت کتنی نسلوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا، ’’اگر ایک استاد ایک نسل کو پڑھا لے، دوسری کو پڑھا لے ، تیسری کو بھی پڑھا لے تو اس کے بعد اسے گولی مار دینی چاہیے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تین نسلوں کو متاثر کر دے، دراصل وہ تین نسلوں کو متاثر نہیں کرتا، وہ کئی زمانوں کو متاثر کرتا ہے۔ معذرت کے ساتھ، ہمارا استاد ایک نسل کو بھی متاثر نہیں کر پا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ویژن ہی نہیں ہے۔ اسے اپنی محنت پر یقین ہی نہیں ہے۔ شاید ایک خودکش حملہ آور سو انسانوں کی جان لے لیتا ہے، لیکن اگر ایک استاد مؤثر اور قابل نہیں ہے تووہ سو نسلوں کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔
ویژن والا انسان ہمیشہ زندہ انسان ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ جذبے والا ہوتا ہے۔ اس کے اندر ایک بجلی سی دوڑ رہی ہوتی ہے اور یہی بجلی وہ بچوں کو، اگلی نسلوں کو منتقل کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، میں کافی نہیں ہوں، میری طرح کے کئی لوگ چاہئیں۔ وہ اپنے علم کو، اپنی عقل کو، اپنے شعور کو دوسروں میں شامل کرنا شروع کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کے استاد کے پاس مسئلے ہی اتنے ہیں کہ وہ علم بانٹنے کی بجائے رزق کی فکریں بانٹ رہا ہے۔ وہ پورا سال بچے کو ڈراتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ کچھ نہیں ہونا۔ وہ اپنی پریشانیاں، فکریں، ڈپریشن بچوں کو تقسیم کرتا رہتا ہے۔ پھر وہی بچہ کل کو محروم باشندہ بن کر معاشرے کا محروم فرد بن جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک اور محروم فرد مل جاتا ہے۔ پھر ہم اس سے توقع لگاتے ہیں کہ وہ اقبالؒ کا شاہین بنے۔ بھلا، وہ کیسے اقبالؒ کا شاہین بنے گا۔
ساتواں راز
آپ کسی اچھی سی بیکری میں جاتے ہیں تو آپ وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ ایک اچھا سا کیک رکھا ہے۔ آپ اسے کھاتے بعد میں ہیں، سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا خوب صورت ہے۔ آپ پیسے دیتے ہیں اور کیک اٹھا کر گھر لے آتے ہیں،یہ بعد کی بات ہے کہ اچھا نکلتا ہے یا نہیں۔ سب سے پہلے ہماری آنکھ دیکھتی ہے کہ وہ چیز اچھی ہے یا نہیں۔ کیک کی طرح ہمیں بھی لوگ اس طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
آج کے استاد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ دیکھنے میں ہی اچھا نہیں لگتا۔ وہ اپنے حلیے، لباس ، انداز، اپنے جوتوں ،اپنے اٹھنے بیٹھنے اور اپنے کھانے پینے کے انداز سے استاد نہیں لگتا۔ دنیا کے مؤثر ترین انسان مہذب لوگ ہوتے ہیں۔ انھیں کھانے،پینے ،پہننے ،چلنے کی تمیزہوتی ہے۔ آپ کبھی یہ چیزیں اپنی زندگی میں شامل کرکے دیکھئے، لوگ آپ سے محبت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ وقت گزارنا چاہیں گے۔ لوگ اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ آپ ہمیں تھوڑا سا وقت دیں۔ لوگ آپ کا تذکرہ اچھے انداز میں کریں گے۔ آج کے استاد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک بہترین کاٹن کا سوٹ پہنتا ہے اور نیچے جوگر پہن لیتا ہے۔ بچوں کو وہ فٹ بال کا کھلاڑی زیادہ لگتا ہے ایک مؤثر استاد نہیں لگتا۔ بچے نے مضمون بعد میں پڑھنا ہے، پہلے اپنے استاد کا حلیہ دیکھنا ہے۔ یقین کیجیے، صرف کلاس روم ہی میں نہیں، استاد کہیں جارہا ہو، کسی محفل میں ہو، حتیٰ کہ بازار میں سودا سلف لے رہا ہو، وہ اگر اچھا استاد ہے تو اپنی چال ڈھال سے بتادیتا ہے کہ وہ استاد ہے۔
اگر آپ کے چھوٹے چھوٹے معاملات اچھے ہیں، عمدہ ہیں تو آپ موثر انسان ہیں۔ اگر آپ مؤثر انسان ہیں تو مؤثر استاد بھی ہیں۔ کئی سال بعد جب بچے بڑے ہوجائیں گے وہ آپ کو یاد ضرور رکھیں گے۔ وہ مڑ کر دیکھیں گے۔ وہ مہذب انسانوں کی فہرست میں آپ کو کھڑا کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ واقعی ایک انسان ملا تھا جو بہت زیادہ شائستہ تھا اور اچھا اُستاذ تھا۔
دنیا کا کوئی بھی طالب علم صرف فزکس، کیمسٹری یا دوسرے مضامین پڑھنے نہیں آتا۔ دراصل وہ ایک تعلیمی ادارے یاایک استاد کے پاس اس لیے آتا ہے کہ استاد یا ادارہ اس کو یہ یقین دے دے کہ تم کچھ کرسکتے ہو۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے تمام کے تمام استاد بہت اچھا پڑھاتے ہیں، بڑی محنت کرتے ہیں لیکن بچے کو یقین نہیں دیتے۔ وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلا نمبر یقین کا آتا ہے، دماغ کا نہیں آتا۔ اگر آپ ایک بچے کو یقین دے دیتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ بیٹا، اگر آپ اپنی صلاحیت پر یقین کرو گے تو یہی صلاحیت آپ کو آسمان کی بلندیوں تک لے کر جائے گی تو آپ اس پر دنیا کا سب سے بڑا احسان کردیتے ہیں۔
ایک اچھے استاد کو بچے کے اندر پہلے محنت کا یقین پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اسے کہنا پڑتا ہے کہ بیٹا، آپ اپنی محنت پر یقین کیجیے۔ جب بچے کو اپنی محنت پر یقین ہو جاتا ہے تو پھر اس کا پڑھنے کا جی کرتا ہے۔ بچے کو دوسرا یقین خدا کی ذات کا دینا ضروری ہے کہ بیٹا،تم خدا پر یقین رکھو۔ اس کے کرم پر یقین رکھو۔ آج تک اس نے کسی کی محنت ضائع نہیں کی۔ جب بھی کوئی شخص آگے بڑھنے کیلئے محنت اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی معاون ہوجاتی ہے۔
دوسرا راز
دنیا کے بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ جب بھی آپ کو آگے بڑھنا ہوتا ہے، آپ کو کسی مقام یا منزل پر پہنچنا ہوتا ہے تو آپ کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہاں تک پہنچنے کا آپ کے پاس کوئی مقصد ہو۔ اگر آپ کی زندگی میں کوئی مقصد ہے تو پھر آپ عام انسان نہیں ہیں۔ آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں۔
اگر آپ بچوں کو مقصد دے دیتے ہیں تو پھر آپ عام استاد نہیں رہتے، مگر مقصد دینے کیلئے یہ ضروری ہے کہ آپ کے پاس بھی کوئی مقصد ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمار ے آج کے استاد کے پاس کوئی مقصد نہیں ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ آپ کیوں پڑھا رہے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے،اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اس کا مقصد چند پیسے ہوتا ہے۔ وہ اپنے جیب خرچ کے لیے اور اپنی زندگی گزارنے کیلئے ایک دہاڑی دار مزدور والی سوچ لیے گھر سے نکلتا ہے، اس لیے نسلوں کی تبدیلی اس کی تعلیم سے ممکن نہیں ہوتی۔
مؤثر استاد بننے کا راز یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی مقصد ضرور ہو۔ ساتھ ہی وہ بچوں کو بھی مقصد سے روشناس کرائے۔ وہ بچوں کو ٹارگٹ دے، چھوٹے چھوٹے ٹاسک دے تاکہ بچوں کو شروع سے عادت پڑ جائے کہ ہمیں زندگی کے صرف دن، ہفتے، مہینے اور سال پورے نہیں کرنے، بلکہ دن،ہفتے اور مہینوں کو کسی مقصد کے تحت گزارنا ہے۔
تیسرا راز
دنیا کا ہر انسان ترقی کرنا چاہتا ہے، آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ آپ کسی سے انٹرویو لیں اور پوچھ لیں کہ کیا وہ ترقی کرنا چاہتا ہے؟ وہ طالب علم ہو،ماں ہو، باپ ہو، استادہو، بزنس مین ہو۔۔۔ اس کا زندگی کے کسی شعبے سے بھی تعلق ہو، وہ اعتراف کرے گا کہ وہ ترقی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اسے ترقی کے سب سے بڑے رازکا پتا نہیں ہوتا۔ وہ راز یہ ہے کہ دنیا میں ترقی صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ چلنے والے ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک فرد کے ساتھ نہیں چلتے، بڑی ٹیم بنا کر کیسے چلیں گے۔ ہم تعلق توڑنے پر آتے ہیں تو اپنے سگے بہن بھائیوں سے تعلق توڑ دیتے ہیں۔ ہمیں واسطہ پڑ جائے تو ہم والدہ سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ساتھ چلنا پڑجائے تو ہمیں اپنے والد صاحب ہی اچھے نہیں لگتے۔ ہم اپنے خاندان کو، اپنے گھر کو، اپنی فیملی کو، اپنے رشتے داروں کو، اپنے محلے داروں کو، اپنے علاقے کو، اپنے شہر کو اور اپنے ملک کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے توپھر ہم ترقی کیسے کرسکتے ہیں۔
چوتھا راز
آپ دنیا کی مرتبہ تاریخ نکال کر دیکھیں تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ تاریخ انسانی میں دنیا کے کامیاب ترین لوگ، مؤثر ترین لوگ، دنیا کے کامیاب ترین استاد، کامیاب ترین دانشور دراصل کردار والے لوگ تھے۔
آج کا استاد۔۔۔ اس کے پاس مضمون ہے، فزکس ہے، کیمسٹری ہے، یادداشت ہے، ڈگری ہے، پروفیسر ہے، لیکن اس کے پاس کردار نہیں ہے۔ جب کردار نہیں ہوتا تو زندگی بھی کم ہوجاتی ہے۔ یہ اس زندگی کی بات ہے جو بڑے اساتذہ کو ملتی ہے۔ سقراط زہر کا پیالہ سامنے رکھتا ہے اور مسکراتا ہے۔ اس کے پاس کھڑا شخص پوچھتا ہے، تم مرنے لگے ہو اور مسکرا رہے ہو؟ وہ کہتا ہے، نہیں میر ی زندگی بہت زیادہ ہے ، میری زندگی تو میرے افکار کی زندگی ہےاور وہ تمام درس جو میں نے ان سٹرکوں پر، ان چوراہوں پر، ان اسکولوں میں دیئے تھے، یہ کئی ہزار سال پڑھائے جائیں گے۔ آج دنیا میں فلسفے کا کوئی طالب علم ممکن ہی نہیں کہ فلسفے کی ڈگری سقراط کو پڑھے بغیر لے سکے۔ یہ کمال ہوتا ہے ایک بڑے استاد کا۔
پانچواں راز
ہمارے ملک میں ڈگریوں ، پروفیسروں، استادوں کی بھرمار ہے، لیکن جب آپ ڈھونڈنے جاتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس پڑھانے کی صلاحیت نہیں ہے تو آپ حیران ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگریاں توہوتی ہیں، وہ ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں،پروفیسر بھی ہوتے ہیں، انھوں نے ماسٹر بھی کیا ہوتا ہے لیکن ان میں پڑھانے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ کیا عجیب بات ہے کہ آپ کشتی ایسے ملاح کے حوالے کر دیں جو کشتی چلانا ہی نہ جانتا ہو۔
جب استاد میں قابلیت نہ ہو تو پھر ہوتا یہ ہے کہ اساتذہ کے لیکچر بیزار کرتے ہیں، کلاسوں میں بیٹھے ہوئے بچوں کو نیند آتی ہے، پروفیسر پڑھا رہا ہوتا ہے، بچے اپنے موبائل نکال کر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ آج کے استاد کو انگیج کرنا نہیں آتا۔ جب بھی آپ کو جوڑنا آتا ہوتا ہے تو آپ عام استاد نہیں رہتے، آپ مؤثر استاد بن جاتے ہیں۔
چھٹا راز
اگر کسی استاد سے پوچھا جائے کہ آپ کیوں پڑھا رہے ہیں تو عموماً یہ جواب ملتا ہے کہ میرے کچھ دن گز ر جائیں۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ جواب دیتا ہے، مجھے اس کی خبر نہیں ہے۔ جس استاد کے پاس ویژن ہی نہیں ہے، اس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس کی آج کی محنت کتنی نسلوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا، ’’اگر ایک استاد ایک نسل کو پڑھا لے، دوسری کو پڑھا لے ، تیسری کو بھی پڑھا لے تو اس کے بعد اسے گولی مار دینی چاہیے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تین نسلوں کو متاثر کر دے، دراصل وہ تین نسلوں کو متاثر نہیں کرتا، وہ کئی زمانوں کو متاثر کرتا ہے۔ معذرت کے ساتھ، ہمارا استاد ایک نسل کو بھی متاثر نہیں کر پا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ویژن ہی نہیں ہے۔ اسے اپنی محنت پر یقین ہی نہیں ہے۔ شاید ایک خودکش حملہ آور سو انسانوں کی جان لے لیتا ہے، لیکن اگر ایک استاد مؤثر اور قابل نہیں ہے تووہ سو نسلوں کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔
ویژن والا انسان ہمیشہ زندہ انسان ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ جذبے والا ہوتا ہے۔ اس کے اندر ایک بجلی سی دوڑ رہی ہوتی ہے اور یہی بجلی وہ بچوں کو، اگلی نسلوں کو منتقل کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، میں کافی نہیں ہوں، میری طرح کے کئی لوگ چاہئیں۔ وہ اپنے علم کو، اپنی عقل کو، اپنے شعور کو دوسروں میں شامل کرنا شروع کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کے استاد کے پاس مسئلے ہی اتنے ہیں کہ وہ علم بانٹنے کی بجائے رزق کی فکریں بانٹ رہا ہے۔ وہ پورا سال بچے کو ڈراتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ کچھ نہیں ہونا۔ وہ اپنی پریشانیاں، فکریں، ڈپریشن بچوں کو تقسیم کرتا رہتا ہے۔ پھر وہی بچہ کل کو محروم باشندہ بن کر معاشرے کا محروم فرد بن جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک اور محروم فرد مل جاتا ہے۔ پھر ہم اس سے توقع لگاتے ہیں کہ وہ اقبالؒ کا شاہین بنے۔ بھلا، وہ کیسے اقبالؒ کا شاہین بنے گا۔
ساتواں راز
آپ کسی اچھی سی بیکری میں جاتے ہیں تو آپ وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ ایک اچھا سا کیک رکھا ہے۔ آپ اسے کھاتے بعد میں ہیں، سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا خوب صورت ہے۔ آپ پیسے دیتے ہیں اور کیک اٹھا کر گھر لے آتے ہیں،یہ بعد کی بات ہے کہ اچھا نکلتا ہے یا نہیں۔ سب سے پہلے ہماری آنکھ دیکھتی ہے کہ وہ چیز اچھی ہے یا نہیں۔ کیک کی طرح ہمیں بھی لوگ اس طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
آج کے استاد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ دیکھنے میں ہی اچھا نہیں لگتا۔ وہ اپنے حلیے، لباس ، انداز، اپنے جوتوں ،اپنے اٹھنے بیٹھنے اور اپنے کھانے پینے کے انداز سے استاد نہیں لگتا۔ دنیا کے مؤثر ترین انسان مہذب لوگ ہوتے ہیں۔ انھیں کھانے،پینے ،پہننے ،چلنے کی تمیزہوتی ہے۔ آپ کبھی یہ چیزیں اپنی زندگی میں شامل کرکے دیکھئے، لوگ آپ سے محبت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ وقت گزارنا چاہیں گے۔ لوگ اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ آپ ہمیں تھوڑا سا وقت دیں۔ لوگ آپ کا تذکرہ اچھے انداز میں کریں گے۔ آج کے استاد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک بہترین کاٹن کا سوٹ پہنتا ہے اور نیچے جوگر پہن لیتا ہے۔ بچوں کو وہ فٹ بال کا کھلاڑی زیادہ لگتا ہے ایک مؤثر استاد نہیں لگتا۔ بچے نے مضمون بعد میں پڑھنا ہے، پہلے اپنے استاد کا حلیہ دیکھنا ہے۔ یقین کیجیے، صرف کلاس روم ہی میں نہیں، استاد کہیں جارہا ہو، کسی محفل میں ہو، حتیٰ کہ بازار میں سودا سلف لے رہا ہو، وہ اگر اچھا استاد ہے تو اپنی چال ڈھال سے بتادیتا ہے کہ وہ استاد ہے۔
اگر آپ کے چھوٹے چھوٹے معاملات اچھے ہیں، عمدہ ہیں تو آپ موثر انسان ہیں۔ اگر آپ مؤثر انسان ہیں تو مؤثر استاد بھی ہیں۔ کئی سال بعد جب بچے بڑے ہوجائیں گے وہ آپ کو یاد ضرور رکھیں گے۔ وہ مڑ کر دیکھیں گے۔ وہ مہذب انسانوں کی فہرست میں آپ کو کھڑا کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ واقعی ایک انسان ملا تھا جو بہت زیادہ شائستہ تھا اور اچھا اُستاذ تھا۔
Last edited: