Atif malik
Member
اس پر پہلے بھی ایک پوسٹ کر چکا ہو لیکن آج کل یہ مسلہ بہت زیادہ ہے اس لیے دوبارا اس پر پوسٹ کرنا ضروری سمجھا
وہم کیا ہے؟؟
جس کے نتیجے میں انسان کبھی جذبۂ رقابت تو کبھی حسد کا شکار ہوجاتا ہے۔منفی فکر کے سبب انسانی طبیعت قنوطیت ومایوسی توکبھی خوف ووہم جیسے نفسیاتی امراض کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔
ماہر نفسیات نے اس طرح کے شدید احساسات (Complexes)کو ذہنی یانفسیاتی بیماریوں سے تعبیر کیا ہے۔ اس طر ح کے کمپلیکس میں مبتلا افراد کی شخصیت معاشرے میں بری طرح متأثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ کوئی انھیں مغرور کہتا ہے تو کوئی انھیں خبطی ۔بہرحال ان کے رویے کی سبب معاشرے میں ان کے متعلق جورائے قائم ہوتی ہے وہ ان کی شخصیت کو مجروح کردیتی ہے جس کا ان کو احساس تک نہیں ہوتا۔
اس طرح کے نفسیاتی مریضوں کے ساتھ بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کو اپنے مرض کا احساس تک نہیں ہوتا، جبکہ جسمانی طورپر جو مریض ہوتے ہیں ان کو اپنے مرض وتکلیف کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ ان کو تکلیف کہا ں ہے۔نفسیاتی مریض اپنی منفی سوچ وفکر کے سبب جوان کے ذہن میں سرایت کرچکی ہوتی ہے غیر معمولی عادتوں کا شکار ہوکر خود کو ہمیشہ حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے تحت تاثیر ذہنی مریضوں کو ماہر نفسیات نے او ۔سی ۔ڈی یعنی (Obsessive Compulsive disorder) سے تعبیر کیا ہے۔جس میں مریض کسی ایک چیز کے بارے میں بار بار سوچتا ہے یا کسی ایک عمل کو بار بار دہراتا ہے ۔جو افراد اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے ذہن میں جو خیال آتا ہے اس پر وہ فوراً عمل کرنے لگتے ہیں لیکن انھیں خود اپنے اس غیر معمولی رویہ کا احساس نہیں ہوتا۔ عام زبا ن میں اس عمل کو خبط جبرانی کہاجاتا ہے۔ اس طرح کے نفسیاتی مریض کبھی کبھی مختلف قسم کے وہم وشکیات میں مبتلا ہوکر خوف کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان کی عادتیں یکسر بدل جاتی ہیں مثلاً ایک شخص بار بار ہاتھ دھوکر بھی مطمئن نہیں ہوتا اسے کہیں نہ کہیں اس بات کا احساس وگمان رہتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں نجاست رہ گئی ہے اوراس کا ہاتھ صاف نہیں ہوا ہے اس لئے وہ اپنے وہم کے سبب ہاتھ کو بار باردھونے کی عادت بنالیتا ہے۔
اسی طرح بعض نفسیاتی مریضوں کا استخارہ پر اعتماد واعتقاد بہت بڑھ جاتا ہے اور وہ چھوٹی سی چھوٹی بات کے لئے بھی استخارہ کا سہارا لینے لگتے ہیں یہاں تک کہ استخارہ کرنا ان کی عادت کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔یہ مرض اتنا بڑھتا ہے کہ لوگوں سے ملنے باہر نکلنے، پروگرام میں شرکت کرنے یانہ کرنے نمازبا جماعت یا فراداپڑھے غرض ہر چیز کے لیے اللہ میاں سے رائے لینے کے قائل ہوجاتے ہیں۔ وہ ضروری اور واجبی کاموں کی انجام دہی کے لیے جس میں عقلی اور فطری امر ہوتا ہے اس میں بھی استخارہ کے عادی بن جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی اس عادت کے سبب اپنے بہت سے نقصانات بھی کر بیٹھتے ہیں ۔درحقیقت ایسے نفسیات کے حامل افراد کہیں نہ کہیں اپنی خود اعتمادی کھودیتے ہیں جو ان کو یہ عمل کرنے پر بار بار مجبور کرتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی انجانہ خوف بھی انھیں ستاتا ہے جس کے سبب وہ ایسا کرتے ہیں۔ان کے اس نفسیاتی رویہ کا تعلق ان کی اس ذہنی اُپج سے ہوتا ہے جوان کے ذہن میں پہلے سے سرایت کرچکی ہوتی ہے۔
’’چند ذہنی بیماریوں میں مریض کے کانوں میں ملا جلا شور اورآوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جب مرض بڑھتا ہے تو باقاعدہ مردوں اور عورتوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں مگر بات کرنے والے لوگ نظر نہیں آتے۔ بعض اوقات مریض ان کی باتوں کا جواب بھی دیتا ہے جبکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خود کلامی کررہا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض ان سے لطف اٹھاتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا مریض کو وہی آوازیں جو اس سے باتیں کرتی ہیں اسے الہام ہونے کا احساس کرانے لگتی ہیں۔‘‘
کسی طرح کے انجانے خوف اور شکیات کی بناء پر اس طرح کے نفسیاتی مریض لوگوں کو اپنا دشمن بھی سمجھنے لگتے ہیں جبکہ حقیقت میں لوگ ان کے دشمن نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ خود کسی کے دشمن نہیں ہیں تو ان کے دشمن کیوں ہوں گے وہ اس طرح سوچتے ہی نہیں۔اس طرح کے لوگ کبھی کبھی تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔ خود کو گھر میں قید کرلیتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا بھی پسند نہیں کرتے انھیں ڈر لگا رہتا ہے کہ میرے دشمن میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، میرے خلاف سازش رچ رہے ہیں یہاں تک کہ حب ان سے کوئی اپنا بھی ملنے ان کے پاس جاتا ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو کسی نے میرے پاس بھیجا ہے۔ اس طرح کے لوگ کبھی کبھی تواپنے سائے سے بھی ڈرنے لگتے ہیں اور اپنے احباب و قرابت داروں کو بھی شک کے دائرے میں دیکھنے لگتے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ ان کے ہمدرد اورچاہنے والے ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ اس طرح کے ذہنی مریض اپنی شخصیت کے برے اثرات اورمنفی رویے اور سلوک کے سبب آہستہ آہستہ سماج اور اہل خانہ کی محبت وپیار اور عدم توجہی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنی پیدا کردہ اختراعی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں جو شک وہم اور خوف کی ایک بڑی دنیا ہوتی ہے۔
یہ ایک ایسی بیماری ہے جو شک سے شروع ہوکر یقین میں بدلنے لگتی ہے۔اس کی مثال آپ اس طرح سمجھئے کہ کبھی کبھی ہم کسی پرانی دیوار پر جس کا پلاسٹر یا پینٹ(Paint)ادھڑ گیا ہو اور اسے ہم جب غور سے دیکھنا شروع کرتے ہیں تو اس میں ہم جو تصویر اپنے ذہن میں ابھاریں گے وہی تصویر نظر آنے لگتی ہے۔اگر ہم اسے ایک بوڑھے کی شکل میں یا کسی جانور کی شکل میں تصور کریں تو وہی نقش ابھر آئے گا جو یقین کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ہماری فکر پر ہمارا تصور غالب آجاتا ہے۔
اس طرح کے نفسیاتی بیماریوں کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی حادثہ جس کا شکار مریض ہوا ہو، اس نے اس حادثہ کا کسی سے تذکرہ تک نہ کیا ہوا ور وہ خوف وشک اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں شک سے گزر کر یقین کی صورت اختیار کرگیا ہو ایسے نفسیاتی مریضوں کا علاج ناممکن نہیں ، ممکن ہے۔ کیونکہ یہ کوئی لاعلاج بیماری نہیں ہے۔ ایسے مریضوں کو خود یا ان کے اہل خانہ کو چاہئے کہ وہ ماہر نفسیات (Psychologist)سے فوری طورپر رجوع کریں تاکہCounsellingکے ذریعے ان کے مرض کا علاج ہوسکے۔ایسے مریض قابل رحم ہوتے ہیں ان کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ہی ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اپنانا چاہیے ان سے الجھنا یابحث کرنا بے سود ہوتا ہے۔
جاہل معاشرے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے مریضوں کے علاج کے لئے لوگ جاہل وخود ساختہ عاملوں کے چکر میں پڑجاتے ہیں اور وہ ایسے مریضوں کو آسیب زدہ، سحرزدہ، بھوت پریت و جنات کا شکار قرار دیدیتے ہیں کہ یہ طاقتیں اس شخص سے ایسا کروا رہی ہیں جبکہ یہ حقیقت نہیں ہوتی۔ یہ ایک او۔سی۔ ڈی جیسی عام بیماری ہے جس کے لیے مریض اور مریض سے متعلقہ افراد کو کسی عامل و پیر کے بجائے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر محمد یعقوب آ فریدی
وہم کیا ہے؟؟
جس کے نتیجے میں انسان کبھی جذبۂ رقابت تو کبھی حسد کا شکار ہوجاتا ہے۔منفی فکر کے سبب انسانی طبیعت قنوطیت ومایوسی توکبھی خوف ووہم جیسے نفسیاتی امراض کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔
ماہر نفسیات نے اس طرح کے شدید احساسات (Complexes)کو ذہنی یانفسیاتی بیماریوں سے تعبیر کیا ہے۔ اس طر ح کے کمپلیکس میں مبتلا افراد کی شخصیت معاشرے میں بری طرح متأثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ کوئی انھیں مغرور کہتا ہے تو کوئی انھیں خبطی ۔بہرحال ان کے رویے کی سبب معاشرے میں ان کے متعلق جورائے قائم ہوتی ہے وہ ان کی شخصیت کو مجروح کردیتی ہے جس کا ان کو احساس تک نہیں ہوتا۔
اس طرح کے نفسیاتی مریضوں کے ساتھ بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کو اپنے مرض کا احساس تک نہیں ہوتا، جبکہ جسمانی طورپر جو مریض ہوتے ہیں ان کو اپنے مرض وتکلیف کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ ان کو تکلیف کہا ں ہے۔نفسیاتی مریض اپنی منفی سوچ وفکر کے سبب جوان کے ذہن میں سرایت کرچکی ہوتی ہے غیر معمولی عادتوں کا شکار ہوکر خود کو ہمیشہ حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے تحت تاثیر ذہنی مریضوں کو ماہر نفسیات نے او ۔سی ۔ڈی یعنی (Obsessive Compulsive disorder) سے تعبیر کیا ہے۔جس میں مریض کسی ایک چیز کے بارے میں بار بار سوچتا ہے یا کسی ایک عمل کو بار بار دہراتا ہے ۔جو افراد اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے ذہن میں جو خیال آتا ہے اس پر وہ فوراً عمل کرنے لگتے ہیں لیکن انھیں خود اپنے اس غیر معمولی رویہ کا احساس نہیں ہوتا۔ عام زبا ن میں اس عمل کو خبط جبرانی کہاجاتا ہے۔ اس طرح کے نفسیاتی مریض کبھی کبھی مختلف قسم کے وہم وشکیات میں مبتلا ہوکر خوف کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان کی عادتیں یکسر بدل جاتی ہیں مثلاً ایک شخص بار بار ہاتھ دھوکر بھی مطمئن نہیں ہوتا اسے کہیں نہ کہیں اس بات کا احساس وگمان رہتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں نجاست رہ گئی ہے اوراس کا ہاتھ صاف نہیں ہوا ہے اس لئے وہ اپنے وہم کے سبب ہاتھ کو بار باردھونے کی عادت بنالیتا ہے۔
اسی طرح بعض نفسیاتی مریضوں کا استخارہ پر اعتماد واعتقاد بہت بڑھ جاتا ہے اور وہ چھوٹی سی چھوٹی بات کے لئے بھی استخارہ کا سہارا لینے لگتے ہیں یہاں تک کہ استخارہ کرنا ان کی عادت کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔یہ مرض اتنا بڑھتا ہے کہ لوگوں سے ملنے باہر نکلنے، پروگرام میں شرکت کرنے یانہ کرنے نمازبا جماعت یا فراداپڑھے غرض ہر چیز کے لیے اللہ میاں سے رائے لینے کے قائل ہوجاتے ہیں۔ وہ ضروری اور واجبی کاموں کی انجام دہی کے لیے جس میں عقلی اور فطری امر ہوتا ہے اس میں بھی استخارہ کے عادی بن جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی اس عادت کے سبب اپنے بہت سے نقصانات بھی کر بیٹھتے ہیں ۔درحقیقت ایسے نفسیات کے حامل افراد کہیں نہ کہیں اپنی خود اعتمادی کھودیتے ہیں جو ان کو یہ عمل کرنے پر بار بار مجبور کرتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی انجانہ خوف بھی انھیں ستاتا ہے جس کے سبب وہ ایسا کرتے ہیں۔ان کے اس نفسیاتی رویہ کا تعلق ان کی اس ذہنی اُپج سے ہوتا ہے جوان کے ذہن میں پہلے سے سرایت کرچکی ہوتی ہے۔
’’چند ذہنی بیماریوں میں مریض کے کانوں میں ملا جلا شور اورآوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جب مرض بڑھتا ہے تو باقاعدہ مردوں اور عورتوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں مگر بات کرنے والے لوگ نظر نہیں آتے۔ بعض اوقات مریض ان کی باتوں کا جواب بھی دیتا ہے جبکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خود کلامی کررہا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض ان سے لطف اٹھاتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا مریض کو وہی آوازیں جو اس سے باتیں کرتی ہیں اسے الہام ہونے کا احساس کرانے لگتی ہیں۔‘‘
کسی طرح کے انجانے خوف اور شکیات کی بناء پر اس طرح کے نفسیاتی مریض لوگوں کو اپنا دشمن بھی سمجھنے لگتے ہیں جبکہ حقیقت میں لوگ ان کے دشمن نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ خود کسی کے دشمن نہیں ہیں تو ان کے دشمن کیوں ہوں گے وہ اس طرح سوچتے ہی نہیں۔اس طرح کے لوگ کبھی کبھی تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔ خود کو گھر میں قید کرلیتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا بھی پسند نہیں کرتے انھیں ڈر لگا رہتا ہے کہ میرے دشمن میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، میرے خلاف سازش رچ رہے ہیں یہاں تک کہ حب ان سے کوئی اپنا بھی ملنے ان کے پاس جاتا ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو کسی نے میرے پاس بھیجا ہے۔ اس طرح کے لوگ کبھی کبھی تواپنے سائے سے بھی ڈرنے لگتے ہیں اور اپنے احباب و قرابت داروں کو بھی شک کے دائرے میں دیکھنے لگتے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ ان کے ہمدرد اورچاہنے والے ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ اس طرح کے ذہنی مریض اپنی شخصیت کے برے اثرات اورمنفی رویے اور سلوک کے سبب آہستہ آہستہ سماج اور اہل خانہ کی محبت وپیار اور عدم توجہی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنی پیدا کردہ اختراعی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں جو شک وہم اور خوف کی ایک بڑی دنیا ہوتی ہے۔
یہ ایک ایسی بیماری ہے جو شک سے شروع ہوکر یقین میں بدلنے لگتی ہے۔اس کی مثال آپ اس طرح سمجھئے کہ کبھی کبھی ہم کسی پرانی دیوار پر جس کا پلاسٹر یا پینٹ(Paint)ادھڑ گیا ہو اور اسے ہم جب غور سے دیکھنا شروع کرتے ہیں تو اس میں ہم جو تصویر اپنے ذہن میں ابھاریں گے وہی تصویر نظر آنے لگتی ہے۔اگر ہم اسے ایک بوڑھے کی شکل میں یا کسی جانور کی شکل میں تصور کریں تو وہی نقش ابھر آئے گا جو یقین کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ہماری فکر پر ہمارا تصور غالب آجاتا ہے۔
اس طرح کے نفسیاتی بیماریوں کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی حادثہ جس کا شکار مریض ہوا ہو، اس نے اس حادثہ کا کسی سے تذکرہ تک نہ کیا ہوا ور وہ خوف وشک اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں شک سے گزر کر یقین کی صورت اختیار کرگیا ہو ایسے نفسیاتی مریضوں کا علاج ناممکن نہیں ، ممکن ہے۔ کیونکہ یہ کوئی لاعلاج بیماری نہیں ہے۔ ایسے مریضوں کو خود یا ان کے اہل خانہ کو چاہئے کہ وہ ماہر نفسیات (Psychologist)سے فوری طورپر رجوع کریں تاکہCounsellingکے ذریعے ان کے مرض کا علاج ہوسکے۔ایسے مریض قابل رحم ہوتے ہیں ان کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ہی ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اپنانا چاہیے ان سے الجھنا یابحث کرنا بے سود ہوتا ہے۔
جاہل معاشرے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے مریضوں کے علاج کے لئے لوگ جاہل وخود ساختہ عاملوں کے چکر میں پڑجاتے ہیں اور وہ ایسے مریضوں کو آسیب زدہ، سحرزدہ، بھوت پریت و جنات کا شکار قرار دیدیتے ہیں کہ یہ طاقتیں اس شخص سے ایسا کروا رہی ہیں جبکہ یہ حقیقت نہیں ہوتی۔ یہ ایک او۔سی۔ ڈی جیسی عام بیماری ہے جس کے لیے مریض اور مریض سے متعلقہ افراد کو کسی عامل و پیر کے بجائے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر محمد یعقوب آ فریدی