Noman waris
Member
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کو گذشتہ برس پیدا ہونے والے پٹرولیم بحران کی فورینزک تحقیقات سے قبل استعفیٰ دینے کی ہدایت کی ہے۔ ان کے علاوہ سیکریٹری پٹرولیم کا بھی تحقیقات سے قبل تبادلہ کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسدعمر اور پٹرولیم بحران پر سفارشات پیش کرنے والی کابینہ کی ایک کمیٹی میں شامل دیگر وزرا کی موجودگی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو اس بحران کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے فورینزک تحقیقات 90 روز میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ گذشہ برس 31 مئی کو حکومت کی جانب سے پیٹرولیئم مصنوعات میں سات روپے کمی کے بعد یہ بحران پیدا ہوا جس کے بعد ملک میں تیل کی قلت دیکھنے میں آئی تھی۔
تاہم جون کے اختتام پر حکومت کی جانب سے جب تیل کی قیمتوں میں 25 اعشاریہ 58 روپے کا اضافہ کیا گیا تو چند ہی گھنٹوں میں پیٹرول کی سپلائی معمول پر آ گئی تھی۔
اسد عمر کا کہنا تھا ’اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمیں ندیم بابر یا سیکریٹری پٹرولیم سے متعلق کوئی غیر قانونی اقدام نظر آیا ہے تاہم وزیرِ اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ کیونکہ یہ عوام کو ہونے والے اربوں روپے کے نقصان کی تحقیقات ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یہ دونوں ان تحقیقات پر کسی بھی حوالے سے اثر انداز ہوں۔'
اسد عمر کے مطابق ان سفارشات کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے جس میں ایک حصہ وہ ہے جن میں جو ہمارے خیال میں مجرمانہ فعل تھے جن پر قانون کے مطابق مقدمات بننے چاہییں، وہ رکھے گئے ہیں اور ایف آئی اے سے کہا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے فورینزک تحقیقات کرے اور 90 دنوں میں اپنی رپورٹ مکمل کرے جس پر عدالتی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
ان سفارشات میں مزید کیا ہے؟
اسد عمر کے مطابق ایف آئی کو کہا گیا ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات پر مبنی تحقیات کرے کہ ’آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی انوینٹری رکھنے کی ضرورت پر غور کیا جائے گا کہ کیا آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اس ضرورت کو پورا کیا؟ دوسری بات یہ کہ جو کاغذ پر فروخت درج کی گئی اس میں اور حقیقت میں ہونے والی سیلز میں کتنا فرق ہے۔
’کیا مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کی گئی، اگر کی تو کس نے کی؟ اس کے علاوہ دیگر نظام کی کمزوریاں ہیں جن میں قانون کی خلاف ورزیاں چلی آ رہی ہیں، انھیں بھی ان سفارشات کا حصہ بنایا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان فورینزک تحقیقات میں آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریٹیلرز کو شامل تفتیش کیا جائے گا ہی، لیکن ساتھ ان سرکاری افراد کو بھی شامل کیا جائے گا جنھوں نے اس حوالے سے ان کی معاونت کی۔ اس میں پٹرولیم ڈویژن، اوگرا اور پورٹ اتھارٹی کے لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ دوسرا حصہ انتظامی امور کے حوالے سے ہے جن میں فیصلوں میں کمزوری، ان مذکورہ اداروں میں کچھ افراد کے بارے میں کہا گیا کہ ان کی وہ قابلیت نہیں ہے کہ یہ ان عہدوں پر بیٹھ سکیں۔ ان تمام انتظامی فیصلوں کے بارے میں پٹرولیم ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انھیں دیکھیں اور وزیرِ اعظم کو اس بارے میں رپورٹ کریں۔
ان کے مطابق ان سفارشات کا تیسرا اور آخری پہلو پورے نظام میں اوگرا اور پٹرولیم ڈویژن کے حوالے سے جو ابہام موجود ہے اس کے بارے میں ہے جسے مٹانے کی ضرورت ہے اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔
پیٹرولیئم بحران 2020 کب کیا ہوا؟
31 مئی 2020 کو حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلاؤ کے باعث پیٹرول کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باعث پاکستان میں سات روپے فی لیٹر کمی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 74 اعشاریہ 52 روپے پر آ گئی۔ تاہم قیمت میں اس کمی کے دو روز بعد ہی پورے ملک میں پاکستان سٹیٹ آئل کے پمپس کے علاوہ پیٹرول کا بحران پیدا ہو گیا۔
اس وقت وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے نو جون کو حکام سے اس مصنوعی بحران کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا کہا گیا۔
کچھ روز بعد ہی اوگرا کی جانب سے چھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر کل چار کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔ تاہم اس کے باوجود پیٹرول کا بحران ویسا ہی رہا۔
اس کے نتیجے میں حکومت کو 26 جون کو پیٹرول کی قیمتوں میں 25 اعشاریہ 58 روپے کا اضافہ کرنا پڑا جو ایک تاریخی اضافہ تھا۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد پیٹرول کی سپلائی معمول پر آ گئی۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ترجمان نے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں اچانک اضافہ اس بحران کی وجہ ہے۔ تاہم اوگرا کا کہنا تھا کہ ملک میں پٹرولیم کا کوئی بحران نہیں تھا۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے اس بحران کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی ذمہ داری ایف آئی اے کو سونپی گئی جس نے دسمبر 2020 میں یہ رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی۔
اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کی ایک کمیٹی اس رپورٹ کا جائزہ لے کر کچھ سفارشات مرتب کرے گی جو وزیرِ اعظم عمران خان کو دی جائیں گی۔ اس کمیٹی میں شیریں مزاری، اعظم سواتی، شفقت محمود اور اسد عمر شامل تھے۔
اسدعمر اور پٹرولیم بحران پر سفارشات پیش کرنے والی کابینہ کی ایک کمیٹی میں شامل دیگر وزرا کی موجودگی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو اس بحران کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے فورینزک تحقیقات 90 روز میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ گذشہ برس 31 مئی کو حکومت کی جانب سے پیٹرولیئم مصنوعات میں سات روپے کمی کے بعد یہ بحران پیدا ہوا جس کے بعد ملک میں تیل کی قلت دیکھنے میں آئی تھی۔
تاہم جون کے اختتام پر حکومت کی جانب سے جب تیل کی قیمتوں میں 25 اعشاریہ 58 روپے کا اضافہ کیا گیا تو چند ہی گھنٹوں میں پیٹرول کی سپلائی معمول پر آ گئی تھی۔
اسد عمر کا کہنا تھا ’اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمیں ندیم بابر یا سیکریٹری پٹرولیم سے متعلق کوئی غیر قانونی اقدام نظر آیا ہے تاہم وزیرِ اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ کیونکہ یہ عوام کو ہونے والے اربوں روپے کے نقصان کی تحقیقات ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یہ دونوں ان تحقیقات پر کسی بھی حوالے سے اثر انداز ہوں۔'
اسد عمر کے مطابق ان سفارشات کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے جس میں ایک حصہ وہ ہے جن میں جو ہمارے خیال میں مجرمانہ فعل تھے جن پر قانون کے مطابق مقدمات بننے چاہییں، وہ رکھے گئے ہیں اور ایف آئی اے سے کہا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے فورینزک تحقیقات کرے اور 90 دنوں میں اپنی رپورٹ مکمل کرے جس پر عدالتی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
ان سفارشات میں مزید کیا ہے؟
اسد عمر کے مطابق ایف آئی کو کہا گیا ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات پر مبنی تحقیات کرے کہ ’آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی انوینٹری رکھنے کی ضرورت پر غور کیا جائے گا کہ کیا آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اس ضرورت کو پورا کیا؟ دوسری بات یہ کہ جو کاغذ پر فروخت درج کی گئی اس میں اور حقیقت میں ہونے والی سیلز میں کتنا فرق ہے۔
’کیا مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کی گئی، اگر کی تو کس نے کی؟ اس کے علاوہ دیگر نظام کی کمزوریاں ہیں جن میں قانون کی خلاف ورزیاں چلی آ رہی ہیں، انھیں بھی ان سفارشات کا حصہ بنایا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان فورینزک تحقیقات میں آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریٹیلرز کو شامل تفتیش کیا جائے گا ہی، لیکن ساتھ ان سرکاری افراد کو بھی شامل کیا جائے گا جنھوں نے اس حوالے سے ان کی معاونت کی۔ اس میں پٹرولیم ڈویژن، اوگرا اور پورٹ اتھارٹی کے لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ دوسرا حصہ انتظامی امور کے حوالے سے ہے جن میں فیصلوں میں کمزوری، ان مذکورہ اداروں میں کچھ افراد کے بارے میں کہا گیا کہ ان کی وہ قابلیت نہیں ہے کہ یہ ان عہدوں پر بیٹھ سکیں۔ ان تمام انتظامی فیصلوں کے بارے میں پٹرولیم ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انھیں دیکھیں اور وزیرِ اعظم کو اس بارے میں رپورٹ کریں۔
ان کے مطابق ان سفارشات کا تیسرا اور آخری پہلو پورے نظام میں اوگرا اور پٹرولیم ڈویژن کے حوالے سے جو ابہام موجود ہے اس کے بارے میں ہے جسے مٹانے کی ضرورت ہے اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔
پیٹرولیئم بحران 2020 کب کیا ہوا؟
31 مئی 2020 کو حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلاؤ کے باعث پیٹرول کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باعث پاکستان میں سات روپے فی لیٹر کمی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 74 اعشاریہ 52 روپے پر آ گئی۔ تاہم قیمت میں اس کمی کے دو روز بعد ہی پورے ملک میں پاکستان سٹیٹ آئل کے پمپس کے علاوہ پیٹرول کا بحران پیدا ہو گیا۔
اس وقت وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے نو جون کو حکام سے اس مصنوعی بحران کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا کہا گیا۔
کچھ روز بعد ہی اوگرا کی جانب سے چھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر کل چار کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔ تاہم اس کے باوجود پیٹرول کا بحران ویسا ہی رہا۔
اس کے نتیجے میں حکومت کو 26 جون کو پیٹرول کی قیمتوں میں 25 اعشاریہ 58 روپے کا اضافہ کرنا پڑا جو ایک تاریخی اضافہ تھا۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد پیٹرول کی سپلائی معمول پر آ گئی۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ترجمان نے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں اچانک اضافہ اس بحران کی وجہ ہے۔ تاہم اوگرا کا کہنا تھا کہ ملک میں پٹرولیم کا کوئی بحران نہیں تھا۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے اس بحران کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی ذمہ داری ایف آئی اے کو سونپی گئی جس نے دسمبر 2020 میں یہ رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی۔
اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کی ایک کمیٹی اس رپورٹ کا جائزہ لے کر کچھ سفارشات مرتب کرے گی جو وزیرِ اعظم عمران خان کو دی جائیں گی۔ اس کمیٹی میں شیریں مزاری، اعظم سواتی، شفقت محمود اور اسد عمر شامل تھے۔